|
تکون بہاولپور کے ریلوے اسٹیشن کے باہر ایک کھلے میدان میں ،کنکریٹ سے بنے ہوئے چاند اور ستارے والے گول چکر کے ارد گرد لا تعداد سائیکل رکشائیں مسافروں کا انتظار کر رہی تھیں۔ جھلسا دینے والی دھوپ میں دیر تک کرتے رہنے کی وجہ سے ڈرائیوروں کے جسم پسینے میں شرابور تھے۔مسافروں کو دیکھتے ہی وہ چیونٹیوں کی طرح میدان میں پھیل گئے۔گٹھے ہوئے جسم والے ایک ڈرائیور نے اپنی سائیکل رکشا میری طرف بڑھائی۔ ’’بابو جی! کہاںجانا ہے؟‘‘ ’نئی غلہ منڈی‘‘ ’’تو بسم اللہ کیجئے‘‘ اپنا سامان سیٹ پر جما کر میں نے رکشے پراپنی جگہ سنبھال لی تو ڈرائیور نے اپنے جسم کا سارا بوجھ رکشے کے اوپر اٹھے ہوئے پیڈل پر ڈال دیا۔پیڈل پر زور پڑا،پہیہ گھوما اور سائیکل رکشا رینگنے لگی۔ڈرائیور کے کولہے یکے بعد دیگرے دائیں بائیں اور ٹانگیںاوپر اور نیچے حرکت کرنے لگیں ۔ ہماری سائیکل رکشا اسٹیشن کے سامنے والے میدان کو پیچھے چھوڑ کر سڑک پر آ گئی۔سورج سر پر تھااورگرمی کی شدت سے سڑک کی تارکول پگھل گئی تھی ،ہماری سائیکل رکشا پگھلی ہوئی تارکول پراپنے نشان چھوڑتی ہوئی منزل کی طرف بڑھنے لگی۔ ڈرائیور نے دائیں اور بائیں جھکتے ہوئے پیڈلوں پر دباؤ بڑھانا شروع کردیا،جس سے رکشا کی رفتار خاصی بڑھ گئی۔سڑک سنسان تھی اور اک سناٹا ماحول کو گھیرے ہوئے تھا۔ایک لمحے کے لئے مجھے ایسے لگا کہ اس شہر میں زندگی کا وجود، بس ان رکشاؤں سے ہے، یہ رک گئیں تویہ شہر پتھرا جائے گا۔ ایک رکشا ہمارے رکشا کے برابر میں آ گئی۔’’کالے بادشاہ‘‘ پیچھے سے آنے والے نے آواز لگائی۔ اللہ بادشاہ‘‘ کالے بادشاہ نے جواب دیااور پھر دونوں ڈرائیوروں کے جسموں میںجیسے بجلیاں بھر گئیں۔پیڈلوں پر پاؤں کا دباؤ بڑھتا گیا اور رکشائیں ہوا سے باتیں کرنے لگیں۔دیکھتے ہی دیکھتے ہماری رکشا نے دوسری رکشا کو بہت پیچھے چھوڑ دیا۔ ایک بڑے گول چکر کے پاس پہنچ کر رکشا والے نے رکشا بائیں طرف کاٹ لی۔پیچھے کی طرف گردن گھما کر پوچھا ’’باؤ جی ۔غلہ منڈی میں کہاں جانا ہے؟‘‘ ’’ غلہ منڈی کے شما لی دروازے کے پاس کوئی پیلی کوٹھی ہے،وہاں ‘ ‘ ’’دستور بابو کے پاس؟‘ ‘ ’ ’ ہاں!مگر تمہیں کیسے پتہ چلا؟ ‘‘ ’ ’ اس لئے کہ میںبھی وہیں رہتا ہوں۔ویسے میرانام کالے۔۔ ‘‘ ’’ کالے بادشاہ ہے ‘‘ میں نے اس کی بات کاٹ دی ’’ہے ناں ؟‘‘ ’’ نہیں بابو جی!کالے بادشاہ نہیں،میرا نام کالے خاں ہے ‘‘ ’ ’ ابھی کچھ دیر پہلے توایک ڈرائیور نے تمہیں کالے بادشاہ کہہ کر پکارا تھا‘‘ ’’ ہاں جی !مگر پکارنے سے تو کوئی کالے خاں سے کالے بادشاہ نہیں بن جاتا؟ بادشاہ تو اوپر والا ہے۔ ہم تو اس کے بندے اور اس کے بندوں کے بندے ہیں‘‘ پل جھپکنے سے بھی کم عرصے میں ،چاک و چوبند ،کالے خاں کے لہجے میں ایک عجیب سی تھکن اتر آئی ’’وہ جس حال میں رکھے ،اس کی مرضی‘‘ بائیں طرف ایک بڑے آ ہنی گیٹ پر ’’نئی غلہ منڈی۔ بہاولپور‘‘کا بورڈ آویزاں تھا۔ گیٹ کے اندر داخل ہو کر اس نے اپنی رکشا روک دی۔ ’’ وہ رہی پیلی کوٹھی،باؤ جی ‘‘ غیر پلستر شدہ دیواروں والی ایک نا مکمل عمارت میرے سامنے تھی ۔ اس کی بیرونی دیواروں پرکی جانے والے چونے میں پیلا رنگ ملایا دیا گیا تھا ۔اس کا پیلا رنگ اسے دوسری عمارتوں سے ممتاز کررہا تھا۔یہ عمارت کسی طرح بھی کوٹھی کہلانے کی مستحق نہیں تھی اور محض پیلے رنگ کی وجہ سے اسے پیلی کوٹھی کا نام دے دیا گیاتھا۔ ۔عمارت کے درمیان میںایک بڑا سا دروازہ تھا اور دروازے کے دونوں جانب گیراج نما دوکانیں بنی ہوئی تھیں۔دوکانوں کے ادھ کھلے دروازوں کے سامنے خاصی ترتیب میں بہت سی سائیکل رکشائیں کھڑی تھیں ۔کالے خاںنے اپنی رکشا بھی انہی رکشاؤں میں ملا دی اور میرا اٹیچی کیس تھام کربڑے دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ بے رنگ و روغن کے دروازے پر سرخ رنگ کے چاک کے ساتھ موٹے موٹے لفظوں میں ’’دستور‘‘ لکھا ہوا تھا۔ بند دروازے پرایک صحت مند دیسی تالا پڑا تھا۔ ’’ لگتا ہے دستور بابو راستے میںکہیں رک گئے ہیں ۔آپ گبھرائیں نہیں ،تھوڑی دیر میں آ جائیں گے ۔آپ کا جی مانے تو آپ میرے کمرے رک کر ان کا انتظار کر سکتے ہیں ‘‘ اس کے لہجے میں ایسی اپنائیت تھی کہ میں انکار نہیں کر سکا۔خلوص نے پل جھپکتے میںاجنبیت اور تذبذب کو شکست دے ڈالی تھی۔ کالے خاں نے اپنے کمرے کا دروازہ کھولا اور فرش پر بچھی ہوئی دری کی طرف اشارہ کر کے بولا’’ آپ کوفرش پر ہی بیٹھنا پڑے گا۔مجبوری ہے ‘‘ کوئی تکلف کئے بغیر، میں دری پر بیٹھ گیا۔ کمرے کی بے پلستر اور سیلن زدہ دیواریں، فلمی پوسٹروں اور فلم ایکٹرسوں کی تصویروں سے بھری پڑی تھیں۔تصویروں کے اوپر تھوڑے تھوڑے فاصلے پرلوہے کے کیل اور لکڑی کی کھونٹیاںگڑی تھیں ۔ کھونٹیوں پرکمرے میں رہنے والوں کے دھلے اور ان دھلے کپڑے لٹکے ہوئے تھے۔ان دھلے کپڑوں کی بہتات اور سیلن کی افراط کی وجہ سے کمرے کے اندر ایک عجیب سی بو پھیلی ہوئی تھی۔ کمرے کی سامنے والی دیوار کے ساتھ ساتھ ٹین کے صندوق رکھے ہوئے تھے۔دروازے کے پاس والے ایک کونے میںکھانے اور کھانا پکانے کے برتن پڑے تھے۔ دوسرے کونے میں گھڑونجی پر ایک گھڑا اورگھڑے پر ایو مینیم کا ایک گلاس اوندھا پڑا تھا۔گھڑے اور گلاس دونوں پر میل کی ان گنت تہیں جمی ہوئی تھیں۔جس کی وجہ سے گھڑے کا سرخ رنگ اور گلاس کا سفید رنگ ہم رنگ ہو چکے تھے ۔عام حالات میں ، میں شاید اس گھڑے یا اس گلاس سے پانی پینے یا نہ پینے پر غورکرتامگر پیاس کی شدت نے مجھے سوچنے کا موقعہ نہیں دیا ۔میں نے کالے خاںسے پوچھے بغیر،گھڑے سے گلاس میں پانی انڈیلا اور غٹا غٹ پی گیا۔ دھوپ سے سائے میں آجانے اور گھڑے کے ٹھنڈے پانی نے ساری کی ساری تھکن اتار دی۔پندرہ سولہ سال کی عمر میںبے گھر ہوئے مجھے ایک ماہ ہو چلا تھااور ہر دن نئی حیرتیں اورنئے تجربات کے ساتھ طلوع ہو رہا تھا۔کالے خان نے ایک سرہانہ میری طر ف سرکا دیا اور دوسرے سرہانے پر سر رکھ کر لیٹنے ہی والا تھا کہ سڑک پار سے دیسی برقعوں میں ڈھکی ہوئی دو عورتیں نمودار ہوئیں اور کالے خاں کے رکشے کے پاس آ کر رک گئیں۔کالے خاں لیٹتے لیٹتے رک گیااور اٹھتے ہوئے بولا ’’اللہ بادشاہ! آدھے دن کے انتظار کے بعدآپ، آج کی میری پہلی سواری تھے۔اب آرام کرنے لگا ہوں تو سواریاںخود بخود آ گئی ہیں ۔میںسواریاں چھوڑ کر واپس آتا ہوں‘ ‘ کالے خاںکمرے سے نکلتے ہوئے بولا’’آپ بلا تکلف دستوربابو کا انتظار کریں۔ اگر وہ میرے آنے سے پہلے آ جائیں توتالا ’’کڑیچ ‘‘ کر دیں ‘‘ تالے کے ساتھ ’’کڑیچ‘‘ کے لفظ نے مجھے اک عجیب سا لطف دیا اور میں کڑیچ کے لفظ کا اردو مترادف سوچنے لگا۔مگر طویل سفر کی تھکاوٹ نے مجھے اس کی مہلت نہیں دی۔ میرا جوڑ جوڑ دکھ رہا تھا ۔ میں نے اٹیچی کیس کا سرہانہ بنایا اورآنکھیں بند کر لیں ۔کچھ دیر تک کپڑوں اور سیلن کی بو مجھے ماحول کی اجنبیت کا احساس دلاتی رہی مگر جلد ہی تھکن غالب آ گئی اور ایک گہری نیند نے مجھے آن لیا۔خاصی لمبی نیند کے بعد میری آنکھ کھلی تو کمرے میں اندھیرا پھیلا ہوا تھا اور گھنی لمبی داڑھی والا ایک شخص میرے برابر میں سویا ہوا تھا ۔میں نے اٹھ کر دروازہ کھول دیا۔سورج ڈھل کر کوٹھی کے پچھواڑے کی طرف جا چکا تھا اوردوکانوں کے سامنے والے حصے کودرختوں کے پھیلتے ہوئے سایوں نے اپنی آغوش میں لے لیا تھا۔یہ منظر دوپہر کے منظر سے قطعی مختلف تھا۔کمرے سے نکل کر میں ’پیلی کوٹھی‘ کے صدر دروازے تک آ گیا۔دروازہ بندنہیں تھا اور میں دروازے کے دونوں پٹوں کے بیچ سے اندر جھانک سکتا تھا۔ دروازے کے عین سامنے منج کے بان سے بنی ہوئی، کھری چارپائی پر دستورسویا ہوا تھا۔اس کا نیم برہنہ بدن پسینے سے شرابور تھا اور پسینے کے قطرے چارپائی کو بگھونے کے بعدفرش پر گر رہے تھے۔کالے خاں کے کمرے کی طرح ،اس کمرے کی دیواریں بھی غیر پلستر شدہ تھیں ۔سامنے والی دیوار کے ساتھ ساتھاایک ہی سائزکی میزیں سجی ہوئیں تھیں اور ان پر تیل ،صابن ،کنکھا،آئینہ اور ضرورت کی دوسری چیزیں بکھری پڑی تھیں۔کچھ توقف کے بعد میں دروازے پر دستک دے ڈالی۔دستورنے چارپائی پرلیٹے لیٹے آنکھیں کھول کر مجھے پہچاننے کی کوشش کی اور پھر اٹھ کر بیٹھ گیا۔ ’’ کون؟‘‘ ’’ میں ریاض ہوں۔ہماری پچھلے ہفتے کالج میں ملاقات ہوئی تھی۔آپ نے کالج میں میرا داخلہ کروایا تھا اوراپنا پتہ لکھ بھی دیا تھا کہ ضرورت پڑنے پر میں اس پتے پر آپ کے پاس بلا تکلف آسکتا ہوں‘‘ میں نے دستور کے اپنے ہاتھ کی لکھی ہوئی چٹ ،جیب سے نکال کر دکھاتے ہوئے اسے یاد، دلایا۔ پہچان لیا، سائیں! بالکل پہچان لیا‘‘ چٹ نے اسے سب کچھ یاد دلا دیا۔چارپائی سے اٹھ کر اس نے میرے ساتھ مصافحہ کیا اور پہلی نظر میں پہچان نہ پانے کی معذرت کرنے لگا سائیں! میں آپ کو پہچان توگیا تھا۔ بس ان آنکھوں کو یقین نہیں آ رہا تھا۔مگر آپ کو توجمعے کی دوپہر کو آنا تھا‘‘ ’’ آج جمعہ ہی ہے اور میں دوپہر کو ہی آگیا تھا مگر آپ کمرے میں نہیںتھے ۔اتفاق سے میں کالے خاں نامی ایک رکشا ڈرائیور کے رکشے میں آیا تھا اوراس نے مجھے اپنے کمرے میں پناہ دے دی تھی ۔اب وہیں سے آرہا ہوں ‘‘ ’’غلطی کی معافی چاہتاہوں،سائیں !مجھے بھولنا نہیں چاہیے تھا۔مگر بندہ بشر ہے ناں ،بھول چوک ہو جاتی ہے‘‘دستور کی باتوں میںبناوٹ نہیںتھی ۔ اس کا قدرے نا ما نوس مگرپر حلاوت لہجہ اس کے خلوص کا عکاس تھا۔کالج میں داخلے والے دن ،اس کے ساتھ میری جان پہچان اتفاقاً ہوگئی تھی ۔ نئے طالب علموں کو’’فسٹ ائیر فول‘‘ بنانے اور ان کامذاق اڑانے کی سنی سنائی باتوں اورشہر میں اجنبی ہونے کی وجہ سے میں دل ہی دل میںبہت ڈرا ہوا تھا اور داخلے کے بارے میں کسی سے کچھ پوچھ بھی نہیں رہا تھا ۔ایسے میں اچانک میری نظر دستور پر پڑی ۔ آج صبح وہ میرے ساتھ ریل گاڑی سے اترا تھا ۔ تب وہ ٹھیٹ دیہاتی لباس میں تھا مگر اب وہ پینٹ شرٹ پہنے ہوئے تھا۔’’ تو کیا یہ بھی کالج میں داخلہ لے لئے آیا ہوا ہے؟‘‘ میں نے دل ہی دل میں سوچا’’ایسا ہے تو یہ میری مدد کر سکتاہے۔شکل و صورت سے تو بھلا مانس لگتا ہے ‘‘ بھائی صاحب!‘‘ میں نے اس سے ہم کلام ہونے کی ہمت کر ہی لی حکم !سائیں! ‘‘ وہ میرے قریب آچکا تھا آپ کا داخلہ ہو گیا ؟ داخلہ ؟‘‘ اس نے کچھ سوچنے کی کوشش کی اور پھر مسکرا دیا۔’’سایئں !اساں تے کئی سالاں توںایس کالج چ دھکے کھاندے پئے آں ۔ کوئی حکم؟‘‘ اس کا لہجہ نا مانوس مگرمٹھاس سے بھر پور تھا آج صبح میں آپ کے ساتھ ہی گاڑی سے اترا تھا۔اس شہر میں نیا ہوں اور کالج میں داخلہ لینے آیا ہوا ہوں ’’ داخلہ لے لیا؟‘‘ ’’ابھی نہیں‘‘ ’’فارم لے لیا ؟‘‘ ’’ابھی نہیں ‘‘ ’’تو صبح سے کیا کیا ہے؟‘‘ ’’انتظار‘‘ ’’انتظار؟ سائیں انتظار چنگی شے کائی نئیں‘‘ اس نے مجھے ساتھ لیا،کلرک کے پاس گیا،اس سے داخلہ فارم مانگااور فارم میرے ہاتھ میں دے دیا ’’ سائیں ! فٹا فٹ بھر و،پرنسپل صاحب کو جانے سے پہلے نہیں پکڑا تو بات کل پرپڑ جائے گی اوربڑا لمبا انتظار کرنا پڑے گا‘‘ میں فارم پر کر چکا تو اس نے فارم میرے ہاتھ سے لے لیا اور مجھے پرنسپل کے کمرے میں لے گیا۔پرنسپل سے پھر وہی پہلے والے نامانوس مگر حلاوت سے بھر پورلہجے میں بات کی۔داخلے کی منظوری کے دستخط کرائے ۔کلرک کے کمرے میں جا کرداخلہ فیس جمع کرائی اور میرے رول نمبر کی پرچی میرے ہاتھ میں تھمادی ’’ سائیں انتظار چنگی شے کائی نئیں ‘‘ وہ مجھے کنٹین پر لے گیا ۔چائے پلائی اور پھر ایک چٹ پر اپنا نام،پتہ،ٹھکانہ لکھ کر مجھے دے دیا۔ ’’اس شہر میں ر ات گزارنے کے لئے چھت نہ ملے تو بلا تکلف میرے پاس آ جانا۔مایوسی تو ہو سکتی ہے ،نا کا می نہیں ہو گی‘‘ ’’ تو میں اگلے جمعے کو آ جاؤں گا ‘‘ ’’بہت بہتر‘‘ دستورکا نام میں نے اس کی دی ہوئی چٹ کو پڑھ کر جا نا تھا۔ اس کے نام اور پتے والی چٹ میری مٹھی میں دبی ہوئی تھی۔چٹ دیتے ہوئے اس نے اپنے بارے میں کہاتھا ’’ میرا نام دستور ہے ۔کچے کارہنے والا ہوں مگر کوئی دوست مان لے توبہت پکا ہوں‘‘ اس کے کچے پکے کی اس وقت مجھے سجھ نہیں آئی تھی۔چنانچہ میرا اس سے پہلا سوال کچے اورپکے کے بارے میں تھا۔کچا پنجاب سے سندھ میں داخل ہونے والی ریلوے لائن کے مغرب کی طرف صدیوں سے دریا کے ساتھ ساتھ آباد علاقہ تھااور پکا ریلوے لائن کے مشرق میں نہری پانی کی مدد سے نئی آباد کردہ زمینیں تھیں ۔کچے کی طرف والی نہروں میںپانی سال میں چھ ماہ اور پکے کی نہروںمیں پانی سارا سال چھوڑا جاتاتھا ۔کچے والے تصوف اور پکے والے تصرف کے دلدادہ تھے۔ پکامختصر عرصے میںسارا سال پانی والی زمینوں ،نسبتاًکم آبادی اور محنتی ہاتھوں کی وجہ سے زیادہ خوشحال نظر آنے لگا تھا ۔پکے والوں کی دکھاوے کی عادت کی وجہ سے یہ خوشحالی حقیقت میں اتنی نہیں تھی، جتنی کہ یہ نظر آتی تھی۔اس دکھاوے کی چکا چوند کی وجہ سے صدیوں پرانے تصوف کی آنکھیں چندیانے لگیں تھیں۔ دستور ان لوگوں میں سے تھا، جو حالات و واقعات کو ان کے پس منظر سے الگ کرکے نہیں دیکھتے تھے ۔ کچے کے مختصر تعارف کے بعد اس نے اپنا مفصل تعارف بزبانِ خود کرانا شروع کر دیا۔ اس کے زندگی نامے میں اس کی اپنی داستان کم اور تذکرہ ء گل رخاںزیادہ تھا۔ تاہم ان دلپذیرداستانوںمیں ابوابِ فتوحات سے قصہ ہائے پسپائی زیادہ تھے۔یہ مردِ داناورعنا اب تک بسبب رحمتِ پروردگار زندہ تھا ۔پیشتر اس کے کہ وہ مجھے اپنے خاص اسلوبِ قصہ گوئی سے قتیلانِ زبانِپہلوی میں شامل کر لیتا،میں نے یہ وضاحت کر ڈالی کہ میں نہ تو ایران سے آیا ہوںاور نہ ہی مستقبلِ قریب میں میرا قصدِ ایران کا کوئی ارادہ ہے۔لہٰذافقیربے تقصیر کوکشتگانِ زبانِ پہلوی میںشامل نہ کیا جائے ۔میری وضاحت پر وہ ہنس دیا کہ اس کا ارادہ مستقبل میں تیل(PETROL) کی تجارت کا ہے اور وہ آجکل فارسی پر ہاتھ صاف کر رہا ہے ۔
’’پڑھیں فارسی بیچیں تیل‘‘ کا مفہوم اس نے یہ نکالا تھا کہ تیل بیچنے کے لئے فارسی زبان کی تحصیل بہت ضروری ہے۔ وہ باتیں کرتا رہا اور میں اس کی باتیں سنتا رہا۔ اسی دوران وہ غیر محسوس طور پرآپ سے تم اورپھر تم سے تو پر اتر آیا۔اسی اثنا میں مغرب کی اذان ہونا شروع ہو گئی تواسے احساس ہوا کہ وہ اپنے تعارف کوضرورت سے زیادہ طویل کر چکا ہے اور مہمان نوازی کے بھی کچھ تقاضے ہوتے ہیں۔اپنی غلطی کا احساس ہوتے ہی اس اس کی تلافی کرنے میں دیر نہیں لگائی۔ ’’ میں بھی کتنا بیوقوف ہوں کہ تم یہ بھی نہیں پوچھا کہ کچھ کھایا پیا بھی ہے یا ۔۔۔۔۔؟‘‘ ’’کھایا تو کچھ نہیں البتہ کالے خاں کے کمرے سے کچھ پانی ضرور پی لیا تھا‘‘ میں نے اس کی بات کاٹ کر مکمل کر دی۔ ’’ تویہ بات مجھے پہلے بتاناتھی ناں‘‘ وہ خود ہی خود ہنس دیا اورایک عجیب سے مضحکہ خیز انداز میں وہ اپنے ہاتھ اپنے کانوں کی طرف بڑھاتا ہوا بولا ’’ مگر میں بولنے کا موقع دیتا تو کچھ بتاتے ناں؟‘‘ کوئی گل نہیں ،سائیں‘‘ میں نے اس کو کان کو پکڑ کر معافی مانگنے کے جھوٹ موٹ عمل سے روکتے ہوئے کہا ’’ مقاماتِ آہ و فغاں پردیس میں نہیں آئیں گے تو کہاں آئیںگے؟ایک تومیں بن بلایا مہمان ہوں اور دوسرے مہمان بے زبان ہوتا ہے ‘‘ بات کر کے جی خوش کر دیا، سائیں ؟‘‘ اس نے مجھے اور میں نے اسے گھورا اور پھرہم دونوں کھلکھلا کر ہنس دئیے۔ |