مونچھ پور
روہی صدیوں سے اسی طرح آبادتھی۔کبھی سرد ،کبھی گرم ۔موسم آتے،موسم چلے
جاتے ۔روہی کے میلے جھمیلے اور کاروبارِزندگی صدیوں سے ایک ہی ڈگر پر چل رہا
تھا ۔سردیوں کی راتیںیخ کر دینے والی ہوتیں توگرمیوںکے دن جھلسا کر رکھ دیتے
۔صحراؤں کی یہی صفت اسے میدانوں سے ممتاز کرتی ہے ۔کھل کربارش ہو جاتی توٹوبے
ٹوئے بھر جاتے ،پیلو بھری بہار آ جاتی اورروہی کی گودخوشیوں سے بھر جاتی۔جس
سال بارش نہ ہوتی ٹوبے ٹوئے سوکھ جاتے اورروہی میں آباد قبیلے اپنے اپنے
ریوڑوں کے ساتھ پانی والے علاقوں کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہو
جاتے۔ہزاروںبھیڑ بکریوں،گاؤں اور اونٹوں پر مشتمل اَن گنت ریوڑ وقفے وقفے سے
آباد کاروں کی بستےیوں کے پاس سے گزرتے تو عجیب سماں بندھ جاتا۔اُونٹوں کی
گردنوں میں بندھی ہوئی گھنٹیوں کی آوازیں بچوں کو گھروں سے باہر نکلنے پر
مجبور کر دیتیں۔ بچے قافلوںکے گزر جانے کے بعد بھی بچھے کچھے اونٹوں کے
انتظار میں گھنٹوں ریت کے ٹیلوں پر بیٹھے رہتے۔
’’شہزادی نے چلتے وقت بڑی ہوشیاری کے ساتھ اپنی جیب میں سرسوں کے بیج بھر
لئے۔جن اسے اپنی بانہوں میں لئے نئی سرزمینوں کی طرف اُڑتا گیا۔پھر بارشیں
ہوئیں۔سرسوں کے بیج اُگ آئے ۔جدھر جدھر سے جن شہزادی کو لے کر گزرا
تھا،ہریالی کی لکیر کھنچ گئی۔شہزادہ اس لکیر پر چلتا چلتا جن کے ٹھکانے تک
پہنچ گیااور شہزادی کورہا کرا لایا ۔‘‘
دادیوں اور نانیوں کی سنائی ہوئی کہانیوں کی شہزادیوں کی سرسوںکی طرح ،ریوڑوں
کی اجتماعی نقل مکانی ایک غیر محسوس عمل کے ذریعے نامیاتی مواد کو سفر کے
راستوںمیں پھیلا دیتی۔بارشیں ہوتیں اور رستے ہریا لیوں سے بھر جاتے ۔پانی کی
تلاش میں در بدرقافلے ان لکیروں پر سفر کرتے کرتے واپس اپنے نخلستانوں میں
پہنچ جاتے ۔
نقل مکانی کی یہ کہانی صدیوں سے دہرائی جا رہی تھی ۔یہی صحرا اُن کے لئے جنت
تھے اور یہی صحرا ان کے لئے جہنم بھی تھے۔ان کا جینا مرنا یہیں تھا۔وہ جاتے
بھی تو کہاں جاتے؟ ہر یالیوں اور نخلستانوں کی از خود نمود کے لئے قدرت کا
وضع کردہ نظام روہی میںجشنِ بہاراں کا سماں پیداکرتا تھااورصاحبِ نظر اہلِدل
کی صوفیانہ شاعری کا محرک بنتا تھا۔محبت کے گیت تو صاحبانِ نظر اور اہلِ محبت
ہی گا سکتے ہیں ۔بند کمروں میں بیٹھ کر صحرا میں رہنے والے خود نمو ہریالیوں
کی پکار کیا سمجھ سکتے ہیں؟
آہستہ خرامی روہی کا خاصہ تھی۔دھیرا پن زندگی کو الگ طرح کا حسن عطا کرتا تھا۔
بے صبروں کوجلدیاںوقت سے پہلے تھکا دیتیں ہیں۔سہج پکے سو میٹھا ہو ۔ سخت
موسمی حالات میںدھیرے دھیرے پکنے والے پھل زیادہ میٹھے اور لمبی عمر والے
ہوتے ہیں۔خوابوں اور خواہشوں کا بھی یہی معاملہ ہے ۔چھوٹے خواب اور چھوٹی
خواہشیںزیادہ تھکاتی نہیں ہیں۔چھوٹے خواب اور چھوٹی خواہشیںدور تک اور دیر تک
ساتھ نبھاہتی ہیں۔تپی ریتوںمیں لاکھ کوشش پر بھی دوڑ نہیں لگائی جا سکتی
تھی۔سائنس کہتی تھی کہ عمل اور ردِ عمل برابر ہوتا ہے ۔نتیجتاًصحراؤںمیںدوڑنے
کی رفتار بھی کم ہوتی ہے اور گرنے پڑنے پر چوٹ لگنے کا امکان بھی کم ہوتا ہے۔
زندگی کے ایک ہی ڈگر پر چلتے رہنے کی وجہ سے روہی میںرہنے والوں کے گیت بھی
پرانے تھے اور خواب بھی نئے نہیں تھے۔
پھر ہیڈ پنجند بنا۔ پنجند سے نہریں نکلیںاورروہی کے سینے میں زندگی کی
شریانوں کیطرح پھیل گئیں۔پہاڑوں سے نکلا ہواسر کش پانی، بارش کا پانی تو تھا
نہیں کہ ٹوبوں اورٹویوںمیں سما جاتا۔حکومت نے روہی میں پانی پہنچا دیا
تھامگرپانی کو پھیلانے کا کام اس کے بس سے باہر تھا۔یہ کام باتیں کرنے والوں
کا نہیں تھا۔باتیں کرنے والے تو کام ہو چکنے کے بعد آتے ہیںاور اپنے مفید
مشورے دیتے ہیں۔اس کام کے لئے توانا بازواور مہارت والے ہاتھ درکار تھے۔ایسے
ہمت والوں کی ضرورت تھی جو ریت پھانک کر ریت کے ٹیلوں کو تسخیر کر سکیں ۔چنانچہ
’’ہمت والے آئیں اور پائیں ‘‘ کا غلغلہ بلند ہوا۔ چار دانگ میں دھوم مچ
گئی۔بے زمیں کسان درخواستیں لے لے کر آئے ۔دوڑے ،بھاگے اوربھاگ والوں کے بھاگ
جاگے۔کسی کو پورامربعہ ملا توکسی کے ہاتھ میں آدھا آیا۔احمد علی کا باپ بھی
انہی خوش قسمت لوگوں میں سے ایک تھا،جن کے حصے میںپورا مربعہ آیا تھا۔احمد
علی کے پانچ بڑے بھائیوں کوالبتہ آدھا آدھا مربعہ ہی مل سکا تھا۔
بیکا نیر میںاحمد علی کے بڑی بڑی مونچھوں والے داداکی ملکیت چھ بیگے زمین تھی۔
اس میں سے ڈیڑھ بیگہ زمین ،اس کے مونچھوں والے دادا نے احمد علی کے باپ کی
شادی کے اخراجات پورت کرنے کے لئے گڑ، تیل اور دالیں بیچنے والے گاؤں کے
اکلوتے بے مونچھ مارواڑی دوکاندارکے پاس گروی ڈال دی تھی۔وجہ یہ تھی کہ ان
دنوں احمد علی کے باپ کا دل کام میں نہیں لگتاتھا۔روایتوں اور کہاوتوں کے
مطابق ایسے بچوں کا ایک ہی علاج تھا کہ ان کی شادی کر دی جائے۔سر پر ذمہ
داریوں کا بوجھ پڑے گا تو چھٹی کا دودھ یاد آ جائے گا۔ نکھٹو بیٹے، گھر
گرہستی کی ذمہ داریاں سر پر پڑنے کے بعد ،عموماًکماؤ بیٹے بن جاتے تھے مگراس
نکھٹوبیٹے نے اپنے پہلے بیٹے کی پیدائش پر خوشیاںمنانے کے لئے ایک بار پھرآدھ
بیگہ زمین اسی مارواڑی کے پاس گروی رکھ دی۔ پانچ بیٹوں کاباپ بننے تک آبائی
زمین قریباً قریباًمارواڑی کے پاس رہن رکھی جا چکی تھی ۔
چھٹے اور سب سے چھوٹے بیٹے احمد علی کی پیدائش تک پرکھوں کی وراثت میں سے بس
مونچھیں ہی بچ پائی تھیں۔ ان کے بچ جانے کی وجہ مونچھوں کا وافر مقدار میں
پایا جانا تھا اور دوسری بڑی وجہ یہ تھی کہ انہیں گروی رکھ کر کوئی پھوٹی
کوڑی بھی ادھار دینے پر تیار نہیں ہوتا تھا۔شرط میں ان کے منڈوائے جانے کی
روائیتںتوزدِ زبانِ عام تھیں مگر منڈوائے جانے کے بعداِن کے دوبارہ بڑھا لینے
پر کوئی قدغن نہیں تھی۔ بڑی بڑی مونچھوں کے معاملے میںاحمد علی اکیلا ہی خوش
قسمت نہیں تھا بلکہ یہ دولت فراوانی سے پورے گاؤں والوں کو میسر تھی۔مونچھیں
تو دستور کی بھی تھیں مگرگاؤںوالوں کی پلی ہوئی مونچھوں کے مقابلے میں اس کی
مونچھیںکسی قحط زدہ علاقے کی مونچھیں لگتی تھیں ۔دستور کا بس چلتا تو بیک
جنبشِ لب گاؤں کا نام بدل کر’’مونچھ پور ‘‘رکھ دیتا۔اُس کی بات میں دَم بھی
تھا کہ کہاوت ’’ مچھ نہیں، توکچھ نہیں ‘‘ اُس کی بنائی ہوئی تو نہیں تھی۔
پاکستان بنا تواحمد علی کا باپ بھی اور لوگوں کی طرح ’’ پرکھوںکی جائیدادیں
‘‘ چھوڑکر پاکستان آگیا۔ اس نے پاکستان آنے کے بعد کچھ سال تو دوسروں کے
کھیتوں پر محنت مزدوری کی ۔پھر یہ زمینیں الاٹ ہو گئیں۔
زمینیںکیا تھیں؟
ریت کے بڑے بڑے بے ڈھنگے پہاڑتھے۔ہواچلتی توبس چلتی ہی جاتی۔ مسلسل ہوا چلنے
کا ایک سلسلہ’’چالیسواں‘‘ کہلاتا تھا۔چالیس دنوں تک ہوا چلتی رہتی اور چولہا
جلانا تقریباًموقوف ہو جاتا۔ کھانا پکتا بھی تواس میں نمک اور مرچوں سے زیادہ
ریت ہوتی ۔گھر کے اندر باہر ہر جگہ ریت کا فرش بچھ جاتا۔آنکھوں ،کانوں ،بالوں،یہاں
تک کہ منہ کے اندربھی ریت ہی ریت ہوتی۔ کھالے (water course} ریت سے بھر جاتے
۔کھیتوں تک پانی پہنچانے کے لئے تقریبا ہر روز کھالوں سے ریت نکالنا
پڑتی۔احمد علی کے باپ نے اپنے باپ کی زندگی میں کی ہوئی کوتاہیوں کی ساری
کسرنکال دی تھی۔مٹی میںمٹی بلکہ ریت میں مٹی ہو کر اس نے مٹی سے سونا اُگا ہی
لیا۔
احمد علی سارے بھائیوں میںچھوٹا اور لاڈلا ہونے اورکھیتی باڑی کی وجہ سے گھر
کے حالات اچھے ہوجانے کی وجہ سے چار جماعتیں پڑھ گیا۔اگر احمد علی کا
استادایک دن احمد علی کو اور احمد علی کے بھائی مل کر احمدعلی کے استاد کو
نہیں مارتے تو شایداحمد علی پرائمری پاس کر جاتا۔اسکول چھوڑنے کے بعد احمد
علی کی صلاحیتیں اپنی مونچھوں کی دیکھ بھال پر صرف ہونے لگیں۔باپ کے مرنے کے
بعدپڑھا لکھا ہونے کی وجہ سے سارے بھائیوں نے متفقہ طور پر باپ کا پگڑ احمد
علی کے چھوٹے سے سر پر رکھ دیا۔
نئے گاؤں کی منصوبہ بندی کرنے والوں نے ایک ایک گھر کے لئے دو دو کنال زمین
رکھی تھی اور گھر کے مالک کے مر جانے کے بعدکھلا صحن’ بھاں بھاں‘ کرنے لگا
تھااور یہ’ بھاں بھاں‘ دور کرنے کا سہل طریقہ یہی تھا کہ احمد علی کی شادی کر
دی جائے۔شادی کے لئے لڑکی کی تلاش شروع ہوئی ۔ مطلوبہ لڑکی کاخوبصورت ہونا تو
ایک طے شدہ امر تھا ۔اس کے علاوہ یہ فیصلہ بھی کر لیا گیا کہ لڑکا پڑھا لکھا
ہے لہٰذہ لڑکی کا بھی پڑھا لکھا ہونا ضروری ہے۔اب آپ اسے نویدا کی خوش قسمتی
ہی کہہ سکتے ہیں کہ وہ خوبصورت اور پڑھی لکھی بھی نکلی اورقرۂ فال اسی کے نام
کا نکل آیا۔ بھائی کا گھر تھا اور بھائی کے گھر سے بہن کیسے خالی لوٹ سکتی
تھی؟ بات پرانی ہو چکی تھی ۔نویدا نے خود کو اس نئے ماحول میں اس طرح ڈھال
لیا تھا کہ اسے گاؤں کی دوسری عورتوں سے الگ کر کے اس کی پہچان کرنا تقریباً
ناممکن ہو گئی تھی۔
سہ پہر کا وقت تھا۔شہرسے آئے ہوئے مہمانوں کا سن کربہت سی عورتیں جمع ہو گئی
تھیں۔عورتوں کی ٹولی ہم سے کچھ ہی فاصلے پر بیٹھی تھی۔ہم اپنی باتوں اور
عورتیں اپنی خوش گپیوں میں مصروف تھیں۔ مونگ پھلی ،میوے،بادام اور دیسی گھی
ڈال کر بطورِ خاص بنائے گئے تازہ گڑ کے ساتھ ،دانے بھوننے والی بھٹی سے مکی
کے بھنوائے گئے دانے اک عجیب مزا دے رہے تھے۔اچانک گلی میں اک شور اٹھا۔کچھ
بچے بھاگتے ہوئے صحن میں داخل ہوئے اور پھولی سانسوںمیں اپنی اپنی ماؤں کے
کانوں میں کچھ کہا۔مائیں چیخیں مارتی ہوئی اٹھیں اوردوڑتی ہوئیں اپنے اپنے
گھروں کو بھاگ گئیں۔
’’کیا ہوا؟ کیا ہوا؟‘‘سوال اٹھا۔سڑک پر عورتوں کے کوسنوں کی آوازیںبلند سے
بلند تر ہونے لگی تھیں۔احمد علی کے بڑے بھائی کی بیٹی بھاگتی ہوئی آئی ۔احمد
علی کی ماں کے کان میں کچھ کہا ۔احمدعلی کی ماںنے نویدا کے کان میں کھسر پھسر
کی اوروہ دونوںبھاگتی ہوئیںصحن سے باہر نکل گئیں۔صدیوں پرانامواصلاتی نظام
گاؤں میں کامیابی کے ساتھ استعمال ہو رہا تھا۔
’’لگتا ہے کوئی حادثہ ہو گیا ہے‘‘دستور نے صورتِ حال کا تجزیہ کرتے ہوئے
کہا۔صحن میں ہم تینوں کے سوا اور کوئی نہیں رہ گیا تھا۔سڑک پر شور بڑھ گیا
توہم تینوں بھی سڑک پر آ گئے۔وہی عورتیں جو کچھ دیر پہلے تک اکٹھی بیٹھی ہنس
ہنس کر باتیں کر رہی تھیں ،اب دو گروہوں میں بٹ کر ایک دوسرے کے خلاف صف آرا
ہو چکی تھیں۔ہسٹیریائی کیفیت کے زیرِ اثر فی البدیع فرمودہ کوسنوں سے کوئی
نتیجہ اخذ کرناکم از کم میرے اور نواز کے بس میں نہیں تھا۔
دستور البتہ اپنے دیہاتی پس منظرکی وجہ سے اس عقدے کو حل کرنے کی صلاحیتکھتا
تھا۔ہمارے کہنے کے بغیرہی اس نے اپنا تحقیقاتی کام شروع کر دیا۔دو چار کانوں
میں کھسر پھسر کی ، کان لگا کر کوسنوں کو ڈی۔ کوڈDE CODE) (کیا اور منٹوں میں
ابتدائی جائزاتی رپورٹ جاری کر دی۔ باہر کھیتوں پر پانی کاٹنے کے وقت پر،
ہونے والی تلخ کلامی تو تو میں میں، میں بدل گئی تھی اور نوبت ہاتھا پائی تک
پہنچ گئی تھی ۔اچھی خبر یہ تھی کہ ڈانگوں کے استعمال سے پہلے ہی بیچ بچاؤ ہو
گیا تھا۔آخری خبریں آنے تک صورتِ حال قابو میں تھی اورتشویش کی کوئی بات نہیں
تھی۔
زنانہ محاذ کا کھل جانا یا کھولا جانامحض ایک احتیاطی قدم تھا ۔ اس قدم کا
اٹھایا جانا ،وقوعے کی بیک اپBACK UP) )کے طور پر ضروری تھا ۔ محاذ سے لوٹنے
والے عینی شاہدوں کی آمد کے ساتھ ساتھ لفظیاتی جنگ کی شدت میں کمی آتی
گئی،کوسنے کم ہوتے گئے اور بھیڑ چھٹتی گئی۔اس سے پہلے کہ میدانِ جنگ میںہماری
موجودگی کی طرف کسی کی توجہ مبذول ہوتی ،ہم گھرمیں واپس آ گئے۔نویدا کی ساس
واپسی کے بعدبہت خوش تھی کہ اس کی بہو اس معرکے میں کسی سے پیچھے نہیں رہی
تھی اور اس نے دشمنوں کی اینٹوں کا جواب پتھروں کے ساتھ دیا تھا۔عورت کسی بھی
سانچے میںڈھل جانے کی اس سے بہتر مثال اور کیا ہو سکتی تھی۔
عورت ہونے کے ناطے عورت کو وہ لڑائیاں بھی لڑنا پڑتی ہیں ،جن میں وہ فریق
نہیںہوتی۔جذب ہونے اور جذب کرنے کی خوبیاں نے اسے کتنا مشکل اورکتنا سہل بنا
دیتی ہیں۔دھرتی پر اپنے پاؤں جمائے رکھنے کے لئے اس قدم قدم اور ہر سانس اپنے
آپ کو ثابت کرنا پڑتا ہے۔ اس سے یہ ثبوت طلب کرنے والی بھی اکثر و بیشتر اس
کی ہم جنس ہوتی ہے ۔کوسنوں کی شکل میں اس کے منہ سے اگلا جانے والا زہر شاید
اس کی ساس کے دو پہر والے زہریلے کوسنے کا ردِ عمل تھا؟
آج ہی اس پر وار ہوا تھا اور آج ہی اس نے اپنی بقا کی جنگ جیت لی تھی۔زنانہ
جنگ میں نویدا کے ڈٹ کر لڑنے کی خبر ،احمد علی کے گھر لوٹنے سے پہلے ہی، احمد
علی تک پہنچ چکی تھی۔ دیہاتنوں کی جنگ میں شہرن پہلی صف میں کھڑے ہو کربے
جگری سے لڑی تھی اور اس نے صفِ دشمناںکو تتر بتر کر دیا تھا۔چند مہینوں ہی
میں اس نے ٹھیٹھ دیہاتنوں کے طور و اطوارکامیابی کے ساتھ سیکھ لئے تھے ۔ عورت
بھی پانی کی طرح ہوتی ہے ۔اسے جس برتن میں ڈالو، اس کی شکل اختیارکر لیتی ہے۔
’‘ یہ اچھا نہیں ہوا ‘‘ نواز کا خیال تھا
’’ کیوں ؟ ‘‘دستور کا سوال تھا
’’ تاریخ با با تاریخ ۔اسکولوں میں پڑھائی جانے والی تاریخ ۔ جب شیر افگن نے
ہمایوں کے دسترخوان پر،بھنے ہوئے دنبے سے اپنے کھانے کے لئے گوشت کا ٹکڑا ،خنجر
سے کاٹ کر الگ کیا تھا۔بات ہے بھی اور نہیں بھی۔معاشرے کے صدیوںپرانے رواج
اور مزاج بدلے نہیں ہیں۔وہ عائشہ ؓ ہو۔مریمؓ ہو یا سیتا ،اسے کبھی نہ کبھی
امتحان سے گزرنا ہی پڑتا ہے ۔پندرہ سولہ سال پہلے فریدہ کی وجہ سے مجھ سے
میرا گھر چھوٹ گیا تھااور آج نویدا کواپنے گھر میں یہ ثابت کرنا پڑ رہا ہے کہ
وہ سچ اورجھوٹ ہر حال میں اپنے نئے خاندان کے ساتھ ہے ۔ المیہ یہ ہے کہ وہ
خود اپنے آپ کو کمزور بناتی ہے۔مشرق ،مغرب، شمال اور جنوب کچھ بھی اس کی فطرت
کو نہیں بدل سکتا ۔ وہ جب جب کمزور پڑتی ہے ،مرد تب تب اور طاقتورہوتا جاتا
ہے۔ویسے مرد بھی اس سے مستثنیٰ نہیں کہ اسے اس کی مونچھیں کہیں کا نہیں رہنے
دیتیں ‘‘
’’ اور ہمیں تم کہیں کا نہیں رہنے دیتے ؟سیر تفریح کے لئے آئے ہیں تو اس
کالطف اٹھانے دو ‘‘ دستور نے اسے ٹوک دیا
’’ یعنی میں بور کرنے لگا ہوں؟ ‘‘ نواز نے استسفار کیا
’’ جی ہاں ‘‘
’’ تو پہلے بتا دینا تھا ‘‘
’’ تم کہیں رکتے توکوئی کچھ کہہ پاتا؟ تمہارا حال تواس عورت کاسا ہے۔جو پہلی
بار کھانا تقسیم کرنے بیٹھی تھی اور اس نے کھانے کی تقسیم کا آغازگھر کے
بڑوںسے کیا تھا ۔ بڑوں کو کھانا دیتے دیتے وہ سب سے چھوٹے بچے کو تقریباً نظر
انداز کر چکی تھی۔ چھوٹے بچے کو سخت بھوک لگی ہوئی تھی۔ وہ زیادہ دیر تک
انتظار نہ کر سکا اور تنگ آ کر کہنے لگا۔’’بے بے ،تو آج ڈاک گاڑی بنی ہوئی ہے
،چھوٹے اسٹیشنوں پر رکتی ہی نہیں ۔‘‘
’’اب تم ڈاک گاڑی نہ بنو ‘‘ میں نے دستور کویاد دلایا اوربات ختم ہوگئی۔چائے
آ گئی تھی۔سبھی نے چائے پینا شروع کر دی تو دستور نے یاد دلایا کہ بھائی احمد
علی کو تو کسی نے چائے دی ہی نہیں۔ جس پر احمد علی نے بتایا کہ وہ چائے نہیں
پیتا۔
’’کیوں؟‘‘ میں نے پھر سوال کیا
’’ اچھے بچے بڑوں کی باتوں میں دخل نہیں دیتے‘‘دستور نے مسکرا کر احمد علی کی
طرف سے جواب دے دیا’’ ویسے بھائی احمد علی، آپ چائے کیوں نہیں پیتے؟‘‘دستور
نے معنی خیز نظروں سے احمد علی کو گھورتے ہوئے سرگوشی کے اندازمیں سوال پھر
دہرا دیا ۔
ہماری شب گزاری کا انتظام بیٹھک میں کیا گیا تھا۔کھانا کھا چکنے کے بعد ہم
بیٹھک میں آ ئے تو اس کے ایک کونے میںچھت تک گنوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔میرے
استسفار پر کہ گنے کچھ زیادہ لگ رہے ہیں ۔احمد علی نے نفی میں سر ہلا کر
بتایا کہ ایک تو گنے پُونے ہیں ۔ دوسرے ہمارے علاوہ اور لوگ بھی گپ شپ کے لئے
آئیں گے اور گنے چوسیں گے۔آتشدان میں لکڑیاں جلا کر کمرے کو اتنا گرم کر دیا
گیا تھا کہ ہماری رضائیوں میں بیٹھ کر گنے چوسنے کی حسرت دھری کی دھری رہ گئی۔
ہمارے ساتھ گپ شپ کے لئے اتنے لوگ آ گئے تھے کہ کرسیاں بھر جانے کے بعد ہماری
چار پائیوں پر بھی بیٹھنے کی جگہ نہیں رہی تھی اور کمرہ لکڑیوں اور سانسوںکی
گرمی سے جلنے لگا تھا۔
بات چیت شروع ہوئی اورجلدہی کچھ لوگوں نے میرے اور نواز کے لہجے سے ہمارے
سیالکوٹی ہونے کا اندازہ لگا لیا ۔ سیالکوٹ کا ذکر آیا تو اس وقت کے مقبول
فلمی گانے ’’اوہ منڈیا سیاکوٹیا ‘‘ کا ذکر چھڑگیا۔گانے کے ذکر سے بات فلموں
تک آگئی۔نواز تو ایسے ہی کسی موقع کی تلاش میں تھا کہ رنگ لگے نہ پھٹکڑی اور
رنگ چوکھاآئے۔اسے کسی پسندیدہ موضوع کی تلاش تھی اور وہ اسے مل گیا تھا۔اس کی
دربدری کا آغاز ایک طرح سے فلموں کی باتوں سے ہوا تھااور فلمیںاس کے شب و روز
کا لازمی حصہ بن چکیں تھیں ۔سادھے سادھے دیہاتی سامعین اس کے ہاتھ آ گئے تھے
۔نواز نے فریدہ کی طرح فلم کے پردے پر کبھی قہقہے اور کبھی آنسو بکھیرتے ہوئے
کرداروں کی باتیں چھیڑ کر سماں باندھ دیا۔
سال ہا سال کی در بدری اور دشت نوردی نے سیدھے سادھے اورنادان لڑکے کو ایک
تجربہ کارداستان گوبنا دیا تھا ۔برسوں پہلے لفظوںسے مہبوت ہونے والا نوازاب
خود لفظ تماشے سے اپنے سامعین کو گھائل کر سکتا تھا۔وہ لفظوں سے مر مریں پیکر
تراش سکتا تھا۔انہیں زندہ کر سکتا تھا اور مار سکتا تھا۔روح پر لگے ہوئے
چرکوں نے لفظوں کا روپ دھار لیا تھا۔اپنی چرب زبانی اوربے پناہ لفاظی کے بل
بوتے پر ،کچھ دیر کے لئے سہی ،وہ وقت کی گردش کو بھی روک سکتا تھا۔وہ ایک بار
پہلے بھی اس کا مظاہرہ کر چکا تھا۔اس کی قوتِداستان گوئی ایک بار پھر عروج پر
تھا۔فرق تھا تو یہ کہ اس روز وہ ہڈبیتی سنا رہا تھا اور آج جگ بیتی سنا رہا
تھا۔
احوالِ مہ رخاںاور تذکرۂ پری وشاں نے سننے والوں کو مبہوت کر دیا تھا۔ فلمی
کردار اس کے حضور ہاتھ باندھے کھڑے تھے اور اس کی انگلی کے ذرا سے اشارے پر
دیکھنے والوں کے سامنے جھک کر سلام کرنے لگتے تھے۔ہر کردار اپنا احوال بیان
کرنے کے بعد کور نش بجا لاتے ہوئے پیچھے ہٹ جاتااور نیا کردارسامنے آجاتا ۔مرد
کرداروںکے مقابلے میں نسوانی زیادہ دیر تک سٹیج پر رکتے اوردیکھنے والوں کا
دل لبھاتے ۔
مدھو بالا سب کے آخر میں سٹیج پر آئی تو نوازبے خود ہو کر خود بھی سٹیج پر آ
گیا۔مدھو بالا سے باتیں کرتا کرتا، وہ اُسے دیکھنے والوں کے اتنا قریب لے آیا
کہ دیکھنے والے اُسے چھو کر محسوس تو کیا؟ اُس کے دل کی دھڑکن تک سن سکتے تھے
۔رات کی خاموشی میں لفظ جیسے نازل ہو رہے تھے۔لڑاکو، بات بات پر جھگڑا کرنے
والے اور پانی کاٹنے میں چند منٹوں کی دیر یا سویر پرلاٹھیاں نکال لینے والے
اجڈ اور گنوار دیہاتی، بچوں کی سی معصومیت کے ساتھ ہمہ تن گوش بیٹھے یہ تماشا
دیکھ رہے تھے۔رات کب اور کیسے گزر گئی ؟ کسی کو خبر تک نہیں ہوئی ۔فجر کی
اذان نے جب یہ طلسم توڑا تو یوں لگ رہا تھا کہ ہم سب ایک گہری نیند سے بیدار
ہوئے ہیں۔ صبحِ صادق طلوع ہو چلی تھی۔کٹھ پتلیوں کا ناچ یکا یک تھم
گیا۔شہرِتماشا آناً فاناًآنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔تماشا گاہ جیسے تھی ہی
نہیں۔احمد علی کی بیٹھک تھی اور ہم۔گنے کے چھلکوں کے ڈھیرچارپائیوں سے اوپر
اٹھ آئے تھے ۔
’’ تو کیا ہم نے ساری رات سیر گاہِ خیال میں اٹھکیلیاں کرتے کرتے کاٹ دی
ہے؟جو کچھ ہم نے سنا ، جو کچھ ہم نے دیکھا کیا وہ سب وہم تھا؟ ‘‘ سننے والوں
کی آنکھوں میں ایک تحیر تھا۔ نواز الف لیلیٰ ولیلیٰ کی داستان کے پیرِتسمہ پا
کی طرح رات بھر ہمارے کندھوںپر سوار رہا تھا۔ ’’یار زندہ صحبت باقی‘‘کہہ
کرنواز نے محفل کی برخواستگی کا باقاعدہ اعلان کر دیا۔رات اور بات ختم ہو چکی
تھی۔گاؤں والے چلے گئے تومیں نواز سے یہ پوچھے بغیر نہ رہ سکا کہ رات ہمارے
سامنے تم تھے یا کوئی جادوگر؟
’’وہ نہ میں تھا اورنہ کوئی جادوگر۔ایک ہارا ہوا آدمی زندہ رہنے کی کوشش کر
رہا تھا ‘‘
ہماراراد ہ گاؤں میں ایک رات رکنے اور صبح واپسی کا تھامگر پوری رات جاگنے کے
بعدہمارے لئے رختِ سفر باندھنا ممکن نہیں رہ گیا تھا۔ حوائجِضروریہ سے فراغت
اور ناشتے کے بعدہم سو گئے۔بعد از دو پہر ہمارے جاگنے تک کھانا تیار ہو چکا
تھا۔ہم کھانا کھا چکے تو احمد علی ہمیں اپنے کھیت دکھانے لے گیا ۔کھیتوںسے
واپسی پرنہر کے پل پرہمیںایک مداری مل گیا اور تماشا دکھانے پر اصرار کرنے
لگا۔وہیں پل کی دیوار پر بیٹھ کر ہم تماشا دیکھنے لگے۔بچپن کی یادیں پھر تازہ
ہونے لگیں۔ہمارا خیال تھا کہ ہم چارآج اکیلے مداری پر نظر رکھ کر تماشے کا
راز جان لیں گے اور پھر اس کا مذاق اڑائیں گے۔وہ تماشا دکھاتا رہامگر کوشش کے
باوجود ہم اس کی کوئی کمزوری پکڑنہیں پائے۔
ہماری آنکھوں کے سامنے اس نے ایک سے دو ،دو سے چاراور چار سے آٹھ روپے
بنائے۔بہی کھاتے کی پرانی کتاب کے صفحوں سے چھینٹ کے کپڑے کے نئے نئے ڈیزائین
نکال کر دکھائے گلاس میں پانی اور پانی میں گوبر ڈالا اور مغلوبہ سا بنا کر
احمد علی پر پھینکا ۔مغلوبے سے پھول بنائے۔پرانے بوسیدہ ہیٹ سے خر گوش نکالا
اور غائب کیا۔ بچے جمورے کوایک بڑے ٹو کرے ڈال کر چادر سے ڈھانپااور غائب کیا۔
باری باری ہر ایک سے پوچھاکہ وہ کیا کھائے گا یا کیا پئے گا؟کسی نے سیب مانگا
تو اسے ٹوکرے سے سیب نکال کر دیا۔ کسی نے کسی خاص مشروب کا مطالبہ کیا تواسی
مشروب کی بوتل حاضر کر دکھائی۔تماشا ختم ہو گیااور ہم اس کا محنتانہ ادا کر
چکے تو وہ اپنا سامان سمیٹنے لگا۔
’’میرا یہ دوست پوچھ رہا ہے کہ ابھی ابھی تم کوئی ٹرِک(trick ( استعمال کر
رہے تھے یا کہ یہ کوئی جادو تھا؟ ‘‘نواز نے مداری کو مخاطب کرتے ہوئے اور
میری طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا
’’ جوکچھ بھی آپ کا دل مان لے ، وہی ٹھیک ہے ‘‘ وہ مسکرا کر بولا
’’یہ تھے توٹِرک(trick )مگر ایک سوال تھوڑا تنگ کر رہا ہے‘‘میں وضاحت کی۔
’’پوچھ لو،آج مداری بھی ترنگ میں ہے اور آج کے بعد آپ بھی کب یہ تماشا دیکھنے
والے ہیں؟شہروں میں ہم جیسے مداریوں کا اب کیا کام؟وہاں تو بڑے بڑے مداری آتے
ہیں اور بڑے بڑے تماشے کرتے ہیں۔ آپ ان سے کہاں یہ سوال پوچھ سکو گے؟‘‘
’’ٹوکرے والا کرتب دکھاتے وقت تم ہر کسی سے پوچھ رہے تھے کہ اسے کیاچائیے؟ یہ
توظاہر ہے کہ وہ چیزیں تمہارے پاس تھیں اور تم اپنے ہاتھ کی صفائی سے انہیں
نکال نکال کرمانگنے والے کو دکھاتے جا رہے تھے۔جو سوال مجھے تنگ کر رہاہے ،وہ
یہ ہے کہ اگر کوئی ایسی چیز مانگ لیتا ،جو تمہارے پاس نہیں تھی تو تم کیا
کرتے؟‘‘
’’سوال اچھا ہے میرے بھائی۔اسے ایسے سمجھ لو کہ بچے اکثر ماؤں سے ایسی چیزوں
کی ضد کرتے رہتے ہیں،جو اس کے پاس نہیں ہوتیں،وہ اپنے پاس موجود چیزوں کو
دائیں بائیں کرکے ضد کرتے ہوئے بچے کو چپ کرا لیتی ہیں۔بچہ کہتا ہے کہ اس دہی
سے شکر نکال دو ۔ ماں شکر نکالنے کی اداکاری کرتی ہے اور کہتی ہے ’’یہ دیکھو
شکر نکال دی ‘‘۔بچہ ماں کی بات کا یقین کر لیتا ہے اوروہی دہی کھانے لگتا ہے
۔ساری ترکیبیں ناکام ہو جائیںتوان کا آخری ہتھیار بچے کی توجہ کسی اورطرف
مبذول کرا دینا ہوتا ہے ۔ ماں بچے کے ہاتھ سے کوئی چیزغائب کرنا چاہتی ہے تو
مخالف سمت میںاشارہ کرتی ہوئی کہتی ہے ۔
’’وہ دیکھو! کوا ۔بچہ کوے کی طرف دیکھتا ہے اورچیز غائب ہو جاتی ہے۔ ماں اسے
کہیں چھپا دیتی ہے ۔ ہم مداری بھی یہی کرتے ہیں۔بات توجہ کی ہے ۔توجہ ہٹا دو
‘‘ ۔وہ اپنا سامان سمیٹ چکا تھا۔اپنی زنبیل اپنے کندھے پر ڈالتے ہوئے اس نے
ہماری طرف دیکھااورمسکر ادیا
’ کوئی اور سوال؟‘‘ہماری طرف سے کسی نئے سوال کے آثار نہ پا کراس نے ایک گہری
سانس لی اور بچے جمورے کو چلنے کا اشارہ کرتے ہوئے بولا’’ باؤ جی ! آپ کو خبر
نہیں کہ آپ نے مجھ سے بظاہر ایک بے ضرر ساسوال پوچھ کر میرے سینے پرسوار
سالوں پرانا بوجھ اتار دیا ہے ۔مائیں بھی کہاں کہاں کام آتی ہیں؟‘‘
مداری چلا گیا تو نواز میری طرف دیکھ کر بولا ۔ ’’ مداری کا جواب تمارے صبح
والے سوال کا جواب تھا۔‘‘’’بیچارہ مداری بھی ہماری طرح دکھی نکلا۔ اس دنیا
میں کوئی خوش ہے بھی؟‘‘ نواز نے دبی زبان میں شاید خود سے سرگوشی کی ۔
’کیا کہا؟‘‘ احمد علی نے چونک کر کہا
’’کچھ نہیں ‘‘نواز منمنایا’’ اوپر والے سے دعا کر رہا تھا کہ وہ سب کو خوش
رکھے۔‘‘
’’آمین‘‘ |